Imdad Akash

امداد آکاش

امداد آکاش کی غزل

    کمخواب تھے اوروں کو جگاتے ہوئے گزرے

    کمخواب تھے اوروں کو جگاتے ہوئے گزرے ہم وقت سحر ڈھول بجاتے ہوئے گزرے اک جادۂ‌ پر خار تھی دشوار تھی دنیا عشاق مگر جھومتے گاتے ہوئے گزرے ہر ناز صبا رشک چمن حسن مجسم پتھرائے اگر آنکھ ملاتے ہوئے گزرے اک زیست کی وادی تھی مگر یاد نہیں ہے آتے ہوئے گزرے تھے کہ جاتے ہوئے گزرے پہلے کیا ...

    مزید پڑھیے

    گردش دشت تمنا سے ملا کچھ بھی نہیں

    گردش دشت تمنا سے ملا کچھ بھی نہیں غلغلہ ہونے کا سنتے تھے ہوا کچھ بھی نہیں ہر حقیقت واہمہ ہے واہمہ کچھ بھی نہیں دیکھنے میں سب خدا ہے اور خدا کچھ بھی نہیں جذبۂ تعمیر میں اک خواہش تخریب تھی کچھ بنانا تھا اسے لیکن بنا کچھ بھی نہیں جب سے چیزوں کی حقیقت سے ہوا ہوں آشنا دیکھتا ہوں پر ...

    مزید پڑھیے

    ذہن اشکال کو زنجیر نہیں کر پایا

    ذہن اشکال کو زنجیر نہیں کر پایا میں مکمل کوئی تصویر نہیں کر پایا میری مٹی میں گندھے جوہر تخریب کی خیر وقت اب تک مجھے تعمیر نہیں کر پایا جانتا ہوں کہ محبت ہے جہانگیر مگر میں محبت کو جہانگیر نہیں کر پایا وقت کو میں نے گزارا ہے ازل سے اب تک پھر بھی میں وقت کی تفسیر نہیں کر ...

    مزید پڑھیے

    لمحے شب وصال کے صرف وصال ہو گئے

    لمحے شب وصال کے صرف وصال ہو گئے اس کو بھی نیند آ گئی ہم بھی نڈھال ہو گئے کیسے حسین لوگ تھے کیسی حسین محفلیں وہ جو خیال و خواب تھے خواب و خیال ہو گئے میں بھی تھا رشک آئینہ تم بھی تھے رشک آئینہ میں بھی سفال ہو گیا تم بھی سفال ہو گئے مجھ کو تھی ان کی ذات سے ایسی مسابقت کہ بس جب میں ...

    مزید پڑھیے

    نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند

    نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند ہے آئینے میں قید مرا آئینہ پسند وہ چار دن بھی ہم سے نباہی نہیں گئی وہ معتدل مزاج تھا میں انتہا پسند وہ خود فریب شخص تھا پتھر شناس تھا آیا نہ اس کو کوئی بھی اپنے سوا پسند جب کوئی فرق شاہد و مشہود میں نہیں کیسے کرے کسی کو کوئی دوسرا پسند پوچھے ہے ہم ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ جاننے والوں کے ساتھ چلتے ہیں

    اگرچہ جاننے والوں کے ساتھ چلتے ہیں مگر ہم اپنے سوالوں کے ساتھ چلتے ہیں طلب تو دیکھ ہماری ترے نگر کی طرف ہم اپنے پاؤں کے چھالوں کے ساتھ چلتے ہیں سب اپنے اپنے تضادوں کے دم سے ہیں زندہ سب اپنے اپنے حوالوں کے ساتھ چلتے ہیں بدن سنبھال کے چلنا شکاریوں کے ہجوم سڑک پہ ریشمی جالوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر کو چولا بدل کے دیکھتا ہوں

    ذرا سی دیر کو چولا بدل کے دیکھتا ہوں حصار ذات سے باہر نکل کے دیکھتا ہوں معاملہ نہ سہی ایک تجربہ ہی سہی تمہارے ساتھ بھی دو گام چل کے دیکھتا ہوں نہیں ہے علم مجھے آج کی حقیقت کا مگر عجیب ہوں میں خواب کل کے دیکھتا ہوں مجھے ملا ہے پس مرگ زندگی کا سراغ حیات میں بھی مناظر اجل کے دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    ہر برہمن بت ہر اک مسلم خدا لے جائے گا

    ہر برہمن بت ہر اک مسلم خدا لے جائے گا میرے در سے ہر مریض اپنی دوا لے جائے گا خود مجھے آنا ہے تیرے پاس یا بردہ ترا میرے پاس آئے گا اور مجھ کو اٹھا لے جائے گا میں حد فاصل تک آ پہنچا جو شوق وصل میں وہ حد فاصل کو اور آگے بڑھا لے جائے گا مجھ کو جانے کس طرف سے لا رہا ہے راستہ مجھ کو جانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2