کمخواب تھے اوروں کو جگاتے ہوئے گزرے
کمخواب تھے اوروں کو جگاتے ہوئے گزرے ہم وقت سحر ڈھول بجاتے ہوئے گزرے اک جادۂ پر خار تھی دشوار تھی دنیا عشاق مگر جھومتے گاتے ہوئے گزرے ہر ناز صبا رشک چمن حسن مجسم پتھرائے اگر آنکھ ملاتے ہوئے گزرے اک زیست کی وادی تھی مگر یاد نہیں ہے آتے ہوئے گزرے تھے کہ جاتے ہوئے گزرے پہلے کیا ...