کہیں جنگل اگاتے ہیں کہیں آہو بناتے ہیں
کہیں جنگل اگاتے ہیں کہیں آہو بناتے ہیں
مصور ہیں ترے پہلو کو صد پہلو بناتے ہیں
بھلا کیا قتل پر اپنے رقیبوں سے گلہ کہ وہ
مرا نافہ جدا کر کے تری خوشبو بناتے ہیں
تحمل سیکھ ہم سے گفتگو کر نرم لہجے میں
کہ سب تیرے رویے ہی کو اپنی خو بناتے ہیں
کہیں کوئی ستارہ چھوڑتے ہیں بے کرانی میں
کبھی اندھیر نگری میں کوئی جگنو بناتے ہیں
عدو کیسے ستم گر ہیں مجھے تسخیر کرنے کو
تری تصویر کے اوپر مرے بازو بناتے ہیں
ہمیں تو خواب میں بھی زلف سلجھانے کی عادت ہے
مگر وہ لوگ جو الجھے ہوئے گیسو بناتے ہیں
ترے کعبے سے کچھ ایمان والوں کو غرض ہوگی
کہ ہم کافر تو بت خانہ بھی قبلہ رو بناتے ہیں
ہم ایسے کشتگان خاک ہی آکاشؔ صحرا میں
صبا کو اپنے دل کی دھونکنی سے لو بناتے ہیں