نفی کے جبر سے آزاد اور ثبات سے دور
نفی کے جبر سے آزاد اور ثبات سے دور
ہے کائنات کوئی میری کائنات سے دور
مرا وجود مری داستاں کا حصہ ہے
مرا نشاں ہے کہیں پر حصار ذات سے دور
پتا چلا ہے کہ چشمہ ہے آب حیواں کا
زمیں کی حد سے پرے عرصۂ حیات سے دور
نگار خانے کے اندر نگار خانے ہیں
کئی خیال ہیں میرے تخیلات سے دور
یہ سبز رنگ یہ شاخیں تو ہیں نظر کا فریب
اگا ہوا ہے شجر ڈال اور پات سے دور