ترے بنائے کو بار دگر بناتے ہوئے
ترے بنائے کو بار دگر بناتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں دریچوں کو در بناتے ہوئے
تجھے خبر نہیں گزرے کس امتحان سے ہم
تری شبیہ تجھے دیکھ کر بناتے ہوئے
پس حیات دکھاتے ہو اک نئی دنیا
لگے گی دیر ادھر کو ادھر بناتے ہوئے
کبھی زمین پہ کتنی زمین ہوتی تھی
وہ سوچتا ہے سمندر میں گھر بناتے ہوئے
اے در خام ذرا دیکھ کیسی پتھرائی
مری نگاہ تجھے بیشتر بناتے ہوئے
زمین چیر گئی آسماں پہ حاوی ہوئی
یہ میری آنکھ نظر کو نظر بناتے ہوئے
مکالمے میں زباں لڑکھڑانے لگتی ہے
پئے دروغ اگر کو مگر بناتے ہوئے
خدا کے بت پہ یہ قصداً نہیں مرا چہرہ
بہک گیا تھا ذرا ہاتھ سر بناتے ہوئے
وہ نقش گر تھا پرندوں کا اور پھر اک دن
ہوا نشین ہوا بال و پر بناتے ہوئے