مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
شجر ہوا میں اگائے گئے زمیں کم تھی
میں اس جگہ ہوں جہاں سے پلٹ کے سورج میں
پناہ ڈھونڈنے سائے گئے زمیں کم تھی
بشر مقیم تھے قبروں میں اور نئے مردے
سمندروں میں بہائے گئے زمیں کم تھی
ہمیں بھی لوٹ ہی جانا ہے ہم سے پہلے بھی
سب آسماں پہ اٹھائے گئے زمیں کم تھی
تمام عمر کٹی اک جگہ کھڑے رہ کر
کبھی نہ ہم کہیں آئے گئے زمیں کم تھی
یہ کائنات سفر تھا سو رات پڑتے ہی
ہم آسمان سرائے گئے زمیں کم تھی
بزرگ آب بقا پی چکے تھے اور بچے
وجود ہی میں نہ لائے گئے زمیں کم تھی
خدا نے آدم و حوا کو کر دیا پیدا
پھر آدمی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
ہم اپنے آپ کو آکاشؔ گھر سمجھتے رہے
ہمیشہ خود ہی میں پائے گئے زمیں کم تھی