Hosh Nomani Rampuri

ہوش نعمانی رامپوری

ہوش نعمانی رامپوری کی غزل

    تلاش منزل راحت میں ہم جہاں گزرے

    تلاش منزل راحت میں ہم جہاں گزرے فریب خوردہ امیدوں کے درمیاں گزرے کئی حسین امیدوں نے پاؤں تھام لیے تری گلی سے جو اک بار ناگہاں گزرے بھٹک کے رہ گئے راہوں میں سوچنے والے مگر جو اہل عمل تھے رواں دواں گزرے ہزار بزم کی سرگوشیوں نے اکسایا مگر ہم اہل زباں ہو کے بے زباں گزرے

    مزید پڑھیے

    خواب تو دیکھ چکے یار سہانے کتنے

    خواب تو دیکھ چکے یار سہانے کتنے اب یہ بتلا کہ ترے غم ہیں اٹھانے کتنے پھول کھلنے بھی نہ پائے تھے کہ چپکے چپکے گشت کرنے لگے خوشبو کے دوانے کتنے تجھ کو معلوم نہیں ایک ترے دل کے سوا تیرے جوگی ہوے دنیا میں ٹھکانے کتنے دھوپ اس جسم کے سورج کی چرانے کے لیے ہجر کی رات تراشے ہے بہانے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی اس لئے شاید ہے پشیماں اے ہوشؔ

    زندگی اس لئے شاید ہے پشیماں اے ہوشؔ کہ فقط موت ہے سرمایۂ انساں اے ہوشؔ خشک ہونٹوں پہ بھی رکھتے ہیں تبسم کی چمک کون کہتا ہے ہمیں بے سر و ساماں اے ہوشؔ وقت کی آنچ سکھا دیتی ہے جسموں کا لہو دل میں رہتے ہیں مگر خون کے طوفاں اے ہوشؔ ان کے سینوں میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں تم نے دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    دل پر نہیں ہم چھائے ہیں ذہنوں کے جہاں تک

    دل پر نہیں ہم چھائے ہیں ذہنوں کے جہاں تک تم نے ابھی پائے نہیں منزل کے نشاں تک پھر بحث ہے تفصیل سے ہر چائے کدے میں زردار کے ایوان سے مفلس کے جہاں تک یہ وقت سے پہلے کی صدا رنگ نہ لائے سونا نہ پہنچ جائے کہیں رود گراں تک بکھری ہوئی تاریخ کی پھر جلد بندھے گی مظلوم کی فریاد سے ظالم کے ...

    مزید پڑھیے

    اک نئی شان سے پھر جشن بہاراں ہونا

    اک نئی شان سے پھر جشن بہاراں ہونا گلستاں تجھ کو مبارک ہو بیاباں ہونا پھول کے روپ میں کانٹوں نے ہمیں پالا ہے ہم کو آیا نہ کبھی غم سے پریشاں ہونا میرے اشعار نے پگھلا دیں کسی کی آنکھیں ایک بت کو بھی میسر ہوا انساں ہونا رامپور اے مرے تہذیب و تمدن کے دیار ہو مبارک تجھے اردو کا ...

    مزید پڑھیے

    دلوں سے ترک تعلق کا ڈر نکل جائے

    دلوں سے ترک تعلق کا ڈر نکل جائے ترا مزاج ذرا سا اگر بدل جائے سبھی کے سامنے ہے اک ہجوم رشتوں کا وہ کامراں ہے جو اس بھیڑ سے نکل جائے اس ارتکاب تمنا پہ کیا سزا دو گے تمہارے قدموں پہ کوئی اگر مچل جائے مرے سلام کا رسماً بھی دیجئے نہ جواب مری طرف سے کبھی ذہن اگر بدل جائے سوائے اک ترے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی جب وفاؤں پر ان کو بد گماں دیکھا

    اپنی جب وفاؤں پر ان کو بد گماں دیکھا ہم نے کتنی حسرت سے سوئے آسماں دیکھا تیلیوں سے ٹکرا کر کیا کہا ہواؤں نے چونک کر اسیروں نے سوئے گلستاں دیکھا ساز حال پر چھیڑا ہر ترانۂ ماضی دل کو جب کبھی ہم نے مائل فغاں دیکھا تیرگی کے پردے میں مرگ تیرگی ہے ہوشؔ جب اٹھا حجاب شب مہر ضو فشاں ...

    مزید پڑھیے

    یہ دل مرا مرے پہلو سے عنقریب چلا

    یہ دل مرا مرے پہلو سے عنقریب چلا شکست کھا کے غموں سے مرا رقیب چلا جب ان کی بزم سے اٹھ کر کوئی غریب چلا فضائیں چیخ اٹھیں حسن کا نقیب چلا وہ پھر سمیٹ کے بانہوں میں کائنات کا رنگ گلے صراحی سے مل کر مرا حبیب چلا جہاں جہاں متصادم ہوئی جنوں سے خرد بڑی ادا سے وہاں خامۂ ادیب ...

    مزید پڑھیے

    چاہتا ہوں کہ مرا درد جگر اور بڑھے

    چاہتا ہوں کہ مرا درد جگر اور بڑھے تیرگیٔ شب غم تا بہ سحر اور بڑھے دور ہے مجھ سے ابھی دامن صد رنگ ان کا کارواں اشکوں کا اے دیدۂ تر اور بڑھے یوں تو تنہا ہی چلا جاؤں گا میں منزل تک تم اگر ساتھ چلو عزم سفر اور بڑھے کتنی رنگین ہے جس راہ پہ اٹھا ہے قدم چاہتا ہوں کہ تری راہ گزر اور ...

    مزید پڑھیے

    ایک رنگین کہانی ہے ترے شہر کی رات

    ایک رنگین کہانی ہے ترے شہر کی رات ہائے یہ کس کی جوانی ہے ترے شہر کی رات بس یوں ہی زلف بکھیرے ہوئے آ جا اے دوست آج کس درجہ سہانی ہے ترے شہر کی رات ریگزار دل شاعر کے لئے جان غزل موج دریا کی روانی ہے ترے شہر کی رات دل کی اس کہر زدہ یاس بھری بستی میں تجھ سے ہی مانگ کے لانی ہے ترے شہر ...

    مزید پڑھیے