زندگی اس لئے شاید ہے پشیماں اے ہوشؔ

زندگی اس لئے شاید ہے پشیماں اے ہوشؔ
کہ فقط موت ہے سرمایۂ انساں اے ہوشؔ


خشک ہونٹوں پہ بھی رکھتے ہیں تبسم کی چمک
کون کہتا ہے ہمیں بے سر و ساماں اے ہوشؔ


وقت کی آنچ سکھا دیتی ہے جسموں کا لہو
دل میں رہتے ہیں مگر خون کے طوفاں اے ہوشؔ


ان کے سینوں میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں
تم نے دیکھے ہیں جو ہنستے ہوئے انساں اے ہوشؔ