یہ دل مرا مرے پہلو سے عنقریب چلا
یہ دل مرا مرے پہلو سے عنقریب چلا
شکست کھا کے غموں سے مرا رقیب چلا
جب ان کی بزم سے اٹھ کر کوئی غریب چلا
فضائیں چیخ اٹھیں حسن کا نقیب چلا
وہ پھر سمیٹ کے بانہوں میں کائنات کا رنگ
گلے صراحی سے مل کر مرا حبیب چلا
جہاں جہاں متصادم ہوئی جنوں سے خرد
بڑی ادا سے وہاں خامۂ ادیب چلا
چھلکنے والا ہے شاید مری حیات کا جام
یہ لڑکھڑاتا ہوا کیوں مرا طبیب چلا
مسائل غم ہستی کو اور الجھانے
وہ ہوشؔ جانب منزل کوئی خطیب چلا