دل پر نہیں ہم چھائے ہیں ذہنوں کے جہاں تک

دل پر نہیں ہم چھائے ہیں ذہنوں کے جہاں تک
تم نے ابھی پائے نہیں منزل کے نشاں تک


پھر بحث ہے تفصیل سے ہر چائے کدے میں
زردار کے ایوان سے مفلس کے جہاں تک


یہ وقت سے پہلے کی صدا رنگ نہ لائے
سونا نہ پہنچ جائے کہیں رود گراں تک


بکھری ہوئی تاریخ کی پھر جلد بندھے گی
مظلوم کی فریاد سے ظالم کے بیاں تک


احباب سے اے ہوش عیادت کا گلا کیا
تحصیل پہ تم آئے نہ صائب کی دکاں تک