اپنی جب وفاؤں پر ان کو بد گماں دیکھا
اپنی جب وفاؤں پر ان کو بد گماں دیکھا
ہم نے کتنی حسرت سے سوئے آسماں دیکھا
تیلیوں سے ٹکرا کر کیا کہا ہواؤں نے
چونک کر اسیروں نے سوئے گلستاں دیکھا
ساز حال پر چھیڑا ہر ترانۂ ماضی
دل کو جب کبھی ہم نے مائل فغاں دیکھا
تیرگی کے پردے میں مرگ تیرگی ہے ہوشؔ
جب اٹھا حجاب شب مہر ضو فشاں دیکھا