دلوں سے ترک تعلق کا ڈر نکل جائے

دلوں سے ترک تعلق کا ڈر نکل جائے
ترا مزاج ذرا سا اگر بدل جائے


سبھی کے سامنے ہے اک ہجوم رشتوں کا
وہ کامراں ہے جو اس بھیڑ سے نکل جائے


اس ارتکاب تمنا پہ کیا سزا دو گے
تمہارے قدموں پہ کوئی اگر مچل جائے


مرے سلام کا رسماً بھی دیجئے نہ جواب
مری طرف سے کبھی ذہن اگر بدل جائے


سوائے اک ترے چہرے کے بھول کر میں نے
اگر نگاہ اٹھائی ہو آنکھ جل جائے