قفس کھولا تھا میں نے آج جب پنچھی اڑانے کو
قفس کھولا تھا میں نے آج جب پنچھی اڑانے کو پرندہ رک گیا اک جیل کے قصہ سنانے کو یہ تنہائی گھٹن اور بے بسی کمرے میں پھیلی ہے رکھی تھی چھت پہ آنکھیں دو کبھی ہم نے سکھانے کو درختوں کی وہ پرچھائی وہ آنگن کا کھلا ہونا کہاں آتی ہے اب چڑیا گھروں میں چہچہانے کو مرے پیروں کی یہ زنجیر اس پل ...