ترے دیار سے جنس محال لے آئے
ترے دیار سے جنس محال لے آئے
جواب لانے گئے اور سوال لے آئے
بہت سے لوگ کوئی تجھ سا ڈھونڈنے نکلے
مجال کس کی جو تیری مثال لے آئے
شکاری دیکھتا ہی رہ گیا بہ حیرانی
پرندے مل کے اڑے اور جال لے آئے
وصال ہجر سیاست مسائل دنیا
غزل میں ہم بھی یہ کیا کیا خیال لے آئے
ستم ظریفی ہے مشکل پسند لوگوں کی
درخت کاٹ نہ پائے تو چھال لے آئے
رلا رلا دیا یاروں نے آج پھر عاقبؔ
غم فراق میں ذکر وصال لے آئے