پرانے گھر کا جو سیدھا سا ایک نقشہ تھے

پرانے گھر کا جو سیدھا سا ایک نقشہ تھے
یہ لوگ وہ ہیں جو پہلے کبھی فرشتہ تھے


تمہارے حسن نظر نے بنا دیا منزل
کبھی نہ جس پہ چلا کوئی ہم وہ رستہ تھے


دیار دشمن جاں سے بہت سہارا ملا
تمہارے شہر سے نکلے تو دل شکستہ تھے


بڑے مزے میں رہے مصلحت کے شہزادے
جو سچ کی راہ میں تھے ان کے حال خستہ تھے


تمہیں بلندیٔ قامت پہ تھا غرور مگر
تھے وہ تو ظرف میں اعلیٰ جو قد میں پستہ تھے


جو اشتہار بنے پھر رہے تھے غیرت کا
امیر شہر کے آگے وہ دست بستہ تھے


یہی ہیں حضرت عاقبؔ جو پارسا ہیں بہت
یہی تو باعث افسانۂ گذشتہ تھے