Hashim Raza Jalalpuri

ہاشم رضا جلالپوری

ہاشم رضا جلالپوری کی غزل

    ترے خیال تری آرزو سے دور رہے

    ترے خیال تری آرزو سے دور رہے نواب ہو کے بھی ہم لکھنؤ سے دور رہے بدن کے زخم تو چارہ گروں نے سی ڈالے مگر یہ روح کے چھالے رفو سے دور رہے زمیں پہ ٹپکا تو یہ انقلاب لائے گا اسے بتا دو، وہ میرے لہو سے دور رہے کیا ہے ہم نے تیمم بھی خاک مقتل پر نماز عشق پڑھی اور وضو سے دور رہے مری زبان کا ...

    مزید پڑھیے

    غم فراق رگوں میں اتر گیا ہوتا

    غم فراق رگوں میں اتر گیا ہوتا اگر میں تجھ سے بچھڑتا تو مر گیا ہوتا کبھی لباس کی خوشبو کبھی زبان کا لمس میں جانے کتنی حدوں سے گزر گیا ہوتا دو آنکھیں کب سے ترا انتظار کرتی ہیں تو میکدے سے کبھی اپنے گھر گیا ہوتا حصول علم نے مصروف رکھا ورنہ میں کسی کو عشق میں برباد کر گیا ...

    مزید پڑھیے

    مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

    مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں میں نئے دوست بناتے ہوئے تھک جاتا ہوں ابر آوارہ ہوں میں کوئی سمندر تو نہیں پیاس صحرا کی بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں مالک کون و مکاں اب تو رہائی دے دے جسم کا بوجھ اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں تو مرے راز بتاتے ہوئے تھکتا ہی نہیں میں ترے راز چھپاتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ہر مکاں آباد تھا یاں ہر مکیں دل شاد تھا

    ہر مکاں آباد تھا یاں ہر مکیں دل شاد تھا اس نگر کا نام یارو پہلے فیض آباد تھا کیا بلا تھا وہ مصور جس کی ہر تصویر میں بلبلیں آزاد تھیں اور قید میں صیاد تھا حضرت آدم نے بھی جانا گناہوں کے طفیل یہ جہاں برباد ہے کہ وہ جہاں برباد تھا مرنے والے کو میاں پہلی محبت کی طرح نرسری اسکول کا ...

    مزید پڑھیے

    تماشہ اہل محبت یہ چار سو کرتے

    تماشہ اہل محبت یہ چار سو کرتے دل و دماغ اور آنکھیں لہو لہو کرتے وہ روشنی سے بھری جھیل کے کنارے پر شکستہ روح، دریدہ بدن رفو کرتے ہمارے بارے میں تفتیش کرنا چاہتے تھے تو جان جان پرندوں سے گفتگو کرتے جمال و حسن سے لبریز جب زمانہ ہے تری بساط ہی کیا تیری آرزو کرتے زمیں پہ چاند ...

    مزید پڑھیے

    یہ اس کی مرضی کہ میں اس کا انتخاب نہ تھا

    یہ اس کی مرضی کہ میں اس کا انتخاب نہ تھا وگرنہ میرے مقدر میں کیا جناب نہ تھا کچھ اس لئے ترے گلشن سے میں پلٹ آیا تمام پھول وہاں تھے مگر گلاب نہ تھا بچھڑتے وقت ہمارے لبوں میں چبھنے لگے سوال ایسے کہ جن کا کوئی جواب نہ تھا جسے بھی چاہا اسے بے حساب چاہا کہ ہمارے دل میں میاں شعبۂ حساب ...

    مزید پڑھیے

    وصال و ہجر کے جنجال میں پڑا ہوا ہوں

    وصال و ہجر کے جنجال میں پڑا ہوا ہوں میں عرش رو کہاں پاتال میں پڑا ہوا ہوں وہی گھٹن، وہی معمول زندگی، وہی غم کہاں میں جشن نئے سال میں پڑا ہوا ہوں یہاں سے نکلوں کسی اور کا شکار بنوں اسی لئے تو ترے جال میں پڑا ہوا ہوں گریباں چاک، دھواں، جام، ہاتھ میں سگریٹ شب فراق، عجب حال میں پڑا ...

    مزید پڑھیے

    امیر شہر تجھے کب دھیان میرا ہے

    امیر شہر تجھے کب دھیان میرا ہے نئی سڑک پہ پرانا مکان میرا ہے زمیں کے چاند نماؤں کی حیثیت کیا ہے کہ چاند ہے جو سر آسمان میرا ہے اب انتظار ہے کس کا اچھالیے سکہ یقین آپ کا ہے اور گمان میرا ہے تری کتاب بدن کا میں پہلا قاری ہوں جہاں جہاں بھی لگا ہے نشان میرا ہے کسی کو الوداع کہنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    دل محلہ غلام ہو جائے

    دل محلہ غلام ہو جائے کوئی اس کا امام ہو جائے دفتر عشق کاش تم آؤ میرے جیسوں کا کام ہو جائے یوں تو رکھا ہے پیاس کا روزہ آ گئے ہو تو جام ہو جائے پھر زبان خدا پہ لفظ کن جشن کا اہتمام ہو جائے چپ کا گھونگھٹ اٹھا کے ہونٹوں سے جان جاناں کلام ہو جائے قیس و فرہاد کی طرح ہاشمؔ بس محبت میں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کیا یونہی ناشاد کرے گی مجھ کو

    زندگی کیا یونہی ناشاد کرے گی مجھ کو یا کسی موڑ پہ آباد کرے گی مجھ کو یہی دنیا کہ جسے قدر نہیں ہے میری یہی دنیا کہ بہت یاد کرے گی مجھ کو میں نے کل رات اسے اپنا بدن سونپ دیا وہ جو کہتی تھی کہ برباد کرے گی مجھ کو اس کا دل مثل قفس اور وہ صیاد صفت جانے کب قید سے آزاد کرے گی مجھ کو مر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3