Hashim Raza Jalalpuri

ہاشم رضا جلالپوری

ہاشم رضا جلالپوری کی غزل

    نا یوں بھی جھانکئے سرکار اک سمندر ہے

    نا یوں بھی جھانکئے سرکار اک سمندر ہے کہ میری آنکھوں کے اس پار اک سمندر ہے ہماری تشنہ دہانی بجھی ہے خنجر سے وہ اور ہیں جنہیں درکار اک سمندر ہے سفینہ ہائے محبت کو غرق کر دے گی یہ جو ہے بیچ میں دیوار اک سمندر ہے تم آؤ لوٹ کے تم کو گلے لگا لوں گا کہ میرا دل بھی مرے یار اک سمندر ...

    مزید پڑھیے

    بدن سے روح ہم آغوش ہونے والی تھی

    بدن سے روح ہم آغوش ہونے والی تھی پھر اس کے بعد سبک دوش ہونے والی تھی نصیب پڑھ کے مرا علم غیب کی دیوی یقین جانئے بے ہوش ہونے والی تھی نہ صرف تیغ کہ پی کر مرے لہو کی شراب زمین دشت بھی مدہوش ہونے والی تھی نگار خانۂ دل میں یہ دھڑکنوں کی گھڑی ترے نہ آنے سے خاموش ہونے والی تھی میں ایک ...

    مزید پڑھیے

    کون سے شہر میں کس گھر میں کہاں ہونا ہے

    کون سے شہر میں کس گھر میں کہاں ہونا ہے میں وہاں ہوتا نہیں مجھ کو جہاں ہونا ہے ایک جگنو نے یہ نکتہ مجھے تعلیم کیا کس پہ پوشیدہ رہو کس پہ عیاں ہونا ہے اس لئے تولتی رہتی ہیں پروں کو روحیں حکم آتے ہی سر عرش رواں ہونا ہے وقت آ پہنچا ہے اب تخت گرائے جائیں دوستو ہم سے ہی یہ کار گراں ...

    مزید پڑھیے

    خدایا بھیج دے کوئی دوا اداسی کی

    خدایا بھیج دے کوئی دوا اداسی کی جہاں میں پھیل رہی ہے وبا اداسی کی مجھے شدید اداسی کا سامنا ہوگا سو میری ماں نے سکھا دی دعا اداسی کی اک ایسی شام ستم آئی تھی ستاروں نے سروں پہ اوڑھی تھی کالی ردا اداسی کی نہ جانے کون سا غم ہے میان دیدہ و دل برستی رہتی ہے پیہم گھٹا اداسی کی نماز ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی آبلہ پائی نہ گھاؤ چاہتی ہے

    نہ کوئی آبلہ پائی نہ گھاؤ چاہتی ہے ہماری خانہ بدوشی پڑاؤ چاہتی ہے سکوت دہر رگوں میں اتر نہ جائے کہیں یہ ٹھہری ٹھہری طبیعت بہاؤ چاہتی ہے میں اک فقیر اسے دے چکا ہوں کب کا طلاق مگر یہ دنیا کہ مجھ سے لگاؤ چاہتی ہے ہوائے بحر ہوس میں ٹھٹھرنے والی روح لبوں کی آگ بدن کا الاؤ چاہتی ...

    مزید پڑھیے

    چمکتے بجھتے ستاروں کے ساتھ کاٹتے ہیں

    چمکتے بجھتے ستاروں کے ساتھ کاٹتے ہیں اس اہتمام سے ہم اپنی رات کاٹتے ہیں مری زبان کی قیمت لگانے والے لوگ مجھے خرید نہ پائے تو بات کاٹتے ہیں ہزاروں سال سے ظلم و ستم کے پروردہ مسافران محبت کے ہاتھ کاٹتے ہیں سوال بیعت آب فرات اٹھتے ہی عصائے تشنہ لبی سے فرات کاٹتے ہیں اسی کا نام ...

    مزید پڑھیے

    زمینوں میں ستارے بو رہا ہوں

    زمینوں میں ستارے بو رہا ہوں مجھے ہرگز نہ کہنا رو رہا ہوں گواہی دیں سمندر چاند ساحل اکیلا ہوں کبھی میں دو رہا ہوں اسے لوٹا دیا میں نے یہ کہہ کر ابھی جاؤ ابھی میں سو رہا ہوں محبت کی کہانی بھی عجب ہے جسے پایا نہیں تھا کھو رہا ہوں پرانے پر نئے کچھ زخم کھا کر لہو سے میں لہو کو دھو ...

    مزید پڑھیے

    دشت میں خاک اڑاتے ہیں دعا کرتے ہیں

    دشت میں خاک اڑاتے ہیں دعا کرتے ہیں ہم قلندر جہاں جاتے ہیں دعا کرتے ہیں یار تو یار ہیں دشمن بھی سدا دور رہیں عشق سے جان چھڑاتے ہیں دعا کرتے ہیں یہ سلیقہ کہ محبت نے سکھایا ہے ہمیں زخم ہنستے ہوئے کھاتے ہیں دعا کرتے ہیں تیرا دل شاد رہے اور تو آباد رہے ہم تجھے چھوڑ کے جاتے ہیں دعا ...

    مزید پڑھیے

    زرد موسم میں بھی اک شاخ ہری رہتی ہے

    زرد موسم میں بھی اک شاخ ہری رہتی ہے دل کے گلشن میں کوئی سبز پری رہتی ہے تشنہ لب کون ہے وہ جس کے لئے نہر فرات میری پلکوں کی منڈیروں پہ دھری رہتی ہے مستقل خانہ بدوشی کا کوئی اجر نہیں پاؤں سے لپٹی مرے در بدری رہتی ہے اے مرے دل کے مکیں کچھ نہیں تبدیل ہوا تم جہاں رہتے تھے شوریدہ سری ...

    مزید پڑھیے

    حادثہ عشق میں درپیش ہوا چاہتا ہے

    حادثہ عشق میں درپیش ہوا چاہتا ہے دل شہنشاہ سے درویش ہوا چاہتا ہے عشق کو ضد ہے کہ تعمیر کرے شہر امید حسن کم بخت بد اندیش ہوا چاہتا ہے اس علاقے سے مرا کوئی تعلق بھی نہیں یہ علاقہ کہ مرا دیش ہوا چاہتا ہے میرے اشعار میں غزلوں میں مرے گیتوں میں ایک کا ذکر کم و بیش ہوا چاہتا ہے جاہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3