دل محلہ غلام ہو جائے
دل محلہ غلام ہو جائے
کوئی اس کا امام ہو جائے
دفتر عشق کاش تم آؤ
میرے جیسوں کا کام ہو جائے
یوں تو رکھا ہے پیاس کا روزہ
آ گئے ہو تو جام ہو جائے
پھر زبان خدا پہ لفظ کن
جشن کا اہتمام ہو جائے
چپ کا گھونگھٹ اٹھا کے ہونٹوں سے
جان جاناں کلام ہو جائے
قیس و فرہاد کی طرح ہاشمؔ
بس محبت میں نام ہو جائے