امیر شہر تجھے کب دھیان میرا ہے

امیر شہر تجھے کب دھیان میرا ہے
نئی سڑک پہ پرانا مکان میرا ہے


زمیں کے چاند نماؤں کی حیثیت کیا ہے
کہ چاند ہے جو سر آسمان میرا ہے


اب انتظار ہے کس کا اچھالیے سکہ
یقین آپ کا ہے اور گمان میرا ہے


تری کتاب بدن کا میں پہلا قاری ہوں
جہاں جہاں بھی لگا ہے نشان میرا ہے


کسی کو الوداع کہنا ہے مسکراتے ہوئے
بہت کڑا ہے مگر امتحان میرا ہے


میں اپنے نام سے پہچانا جاتا ہوں ہاشمؔ
کوئی قبیلہ ہے نہ خاندان میرا ہے