یہ اس کی مرضی کہ میں اس کا انتخاب نہ تھا
یہ اس کی مرضی کہ میں اس کا انتخاب نہ تھا
وگرنہ میرے مقدر میں کیا جناب نہ تھا
کچھ اس لئے ترے گلشن سے میں پلٹ آیا
تمام پھول وہاں تھے مگر گلاب نہ تھا
بچھڑتے وقت ہمارے لبوں میں چبھنے لگے
سوال ایسے کہ جن کا کوئی جواب نہ تھا
جسے بھی چاہا اسے بے حساب چاہا کہ
ہمارے دل میں میاں شعبۂ حساب نہ تھا
گلوئے خشک سے تیر ستم کو توڑ دیا
یہ بچپنے کا تھا عالم ابھی شباب نہ تھا
میں اک زمانے میں ہاشمؔ رضا پیمبر تھا
محبتوں کا مگر صاحب کتاب نہ تھا