ہر مکاں آباد تھا یاں ہر مکیں دل شاد تھا

ہر مکاں آباد تھا یاں ہر مکیں دل شاد تھا
اس نگر کا نام یارو پہلے فیض آباد تھا


کیا بلا تھا وہ مصور جس کی ہر تصویر میں
بلبلیں آزاد تھیں اور قید میں صیاد تھا


حضرت آدم نے بھی جانا گناہوں کے طفیل
یہ جہاں برباد ہے کہ وہ جہاں برباد تھا


مرنے والے کو میاں پہلی محبت کی طرح
نرسری اسکول کا پہلا سبق بھی یاد تھا


عشق زادوں میں پروٹوکال کا جھگڑا نہیں
قیس جس جنگل میں تھا آخر وہیں فرہاد تھا


جس کو ڈکشن کہہ رہے ہیں مفتیان ریختہ
یہ نیا لہجہ غریب شہر کی ایجاد تھا


محفل شعر و سخن میں کل کی شب ہاشمؔ رضا
کیا کہوں میرے علاوہ ہر کوئی استاد تھا