غم فراق رگوں میں اتر گیا ہوتا

غم فراق رگوں میں اتر گیا ہوتا
اگر میں تجھ سے بچھڑتا تو مر گیا ہوتا


کبھی لباس کی خوشبو کبھی زبان کا لمس
میں جانے کتنی حدوں سے گزر گیا ہوتا


دو آنکھیں کب سے ترا انتظار کرتی ہیں
تو میکدے سے کبھی اپنے گھر گیا ہوتا


حصول علم نے مصروف رکھا ورنہ میں
کسی کو عشق میں برباد کر گیا ہوتا


مجھے ہے تم سے محبت یہ اس نے بولا تھا
وہ کاش اپنے کہے سے مکر گیا ہوتا


بچھڑنے والا فقط ایک بوسے سے ہاشمؔ
مری جبین پہ احسان دھر گیا ہوتا