خدایا بھیج دے کوئی دوا اداسی کی
خدایا بھیج دے کوئی دوا اداسی کی
جہاں میں پھیل رہی ہے وبا اداسی کی
مجھے شدید اداسی کا سامنا ہوگا
سو میری ماں نے سکھا دی دعا اداسی کی
اک ایسی شام ستم آئی تھی ستاروں نے
سروں پہ اوڑھی تھی کالی ردا اداسی کی
نہ جانے کون سا غم ہے میان دیدہ و دل
برستی رہتی ہے پیہم گھٹا اداسی کی
نماز عشق مصلے پہ کب ادا ہوئی ہے
عزا کا فرش یا کرب و بلا اداسی کی
مری پناہ میں آؤ اے درد کے مارو
تمام دہر میں گونجی صدا اداسی کی
اداسیوں کی عنایت ہے کار ہائے سخن
مرے لئے تو جزا ہے سزا اداسی کی
غموں کی دھوپ سے سائے میں آ گئے ہاشمؔ
مگر کسی نے نہ پوچھی رضاؔ اداسی کی