کون سے شہر میں کس گھر میں کہاں ہونا ہے

کون سے شہر میں کس گھر میں کہاں ہونا ہے
میں وہاں ہوتا نہیں مجھ کو جہاں ہونا ہے


ایک جگنو نے یہ نکتہ مجھے تعلیم کیا
کس پہ پوشیدہ رہو کس پہ عیاں ہونا ہے


اس لئے تولتی رہتی ہیں پروں کو روحیں
حکم آتے ہی سر عرش رواں ہونا ہے


وقت آ پہنچا ہے اب تخت گرائے جائیں
دوستو ہم سے ہی یہ کار گراں ہونا ہے


اس قدر دل نے خسارہ تو نہیں سوچا تھا
یہ تو طے تھا کہ محبت میں زیاں ہونا ہے


مذہب عشق میں جائز ہے سبھی کچھ ہاشمؔ
آج تم جان ہو کل دشمن جاں ہونا ہے