چمکتے بجھتے ستاروں کے ساتھ کاٹتے ہیں
چمکتے بجھتے ستاروں کے ساتھ کاٹتے ہیں
اس اہتمام سے ہم اپنی رات کاٹتے ہیں
مری زبان کی قیمت لگانے والے لوگ
مجھے خرید نہ پائے تو بات کاٹتے ہیں
ہزاروں سال سے ظلم و ستم کے پروردہ
مسافران محبت کے ہاتھ کاٹتے ہیں
سوال بیعت آب فرات اٹھتے ہی
عصائے تشنہ لبی سے فرات کاٹتے ہیں
اسی کا نام سہارا ہے دکھ کے ماروں کا
اسی کے نام سے ہم حادثات کاٹتے ہیں
ہماری قدر کرو ہم ہیں شاعران جنوں
قلم کی نوک سے فصل حیات کاٹتے ہیں