حسیب الحسن کی غزل

    کسی پری کے خیالوں میں رقص کرتے رہے

    کسی پری کے خیالوں میں رقص کرتے رہے ہماری آنکھ سے آنسو نکل کے اڑتے رہے ہم ایسے پتے انا زاد بھی بلا کے تھے بہار رت میں درختوں سے لڑ کے جھڑتے رہے کسی کے لفظ گرے آبشار کے مانند ہمارے دل میں مسلسل شگاف پڑتے رہے کسی کو مانگنے آئی تھی منتوں سے کوئی کئی فقیر مزاروں پہ سر پٹختے ...

    مزید پڑھیے

    جو تری شکل کو مہتاب نہیں کہہ سکتے

    جو تری شکل کو مہتاب نہیں کہہ سکتے وہ مری آنکھ کو تالاب نہیں کہہ سکتے سچ میں کمزور ہے بینائی ہماری لیکن ریت کے ذرے کو سیماب نہیں کہہ سکتے ہم ہیں اوصاف پہ معیار پرکھنے والے اس لئے کوے کو سرخاب نہیں کہہ سکتے کم سے کم آپ تو رکھ لیجے بھرم یاری کا وہ تو دشمن ہیں نا آداب نہیں کہہ ...

    مزید پڑھیے

    سبھی مے کش توازن کھو رہے ہیں

    سبھی مے کش توازن کھو رہے ہیں خدا سے بے تکلف ہو رہے ہیں کسی کی آنکھ بنجر ہو گئی ہے کسی کے اشک برتن دھو رہے ہیں کہیں پر سوگ واجب ہو رہا ہے کسی کے فرض پورے ہو رہے ہیں ہمیں دھوکہ ملا دھوکہ ہی دیں گے جو کاٹا ہے وہ آگے بو رہے ہیں بہت پرہیز برتا جا رہا ہے مرے زخموں کو ناخن رو رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں

    سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں زخموں سے لطف لیتا انوکھا مریض ہوں باتیں محبتوں کی مرے سامنے نہ کر تو جانتا بھی ہے کہ میں دل کا مریض ہوں پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں پھر میرا ٹھیک ہونے کو دل ہی نہیں کیا اس نے مجھے کہا تھا میں اچھا مریض ...

    مزید پڑھیے

    ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں

    ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں جا تجھ کو تخیل سے بری کرنے لگے ہیں ہاں راس نہیں ہم کو محبت کا خزانہ تھک ہار کے ہم سوداگری کرنے لگے ہیں مٹی سے بنایا تھا جو ساحل پہ گھروندا کچھ بچے اسے بارہ دری کرنے لگے ہیں اس واسطے لہجے کو بدل ڈالا ہے ہم نے خوشاب کو ہم دیکھ مری کرنے لگے ...

    مزید پڑھیے

    چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا

    چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا بوڑھی رسموں سے بغاوت بھی نہیں کر سکتا تو مری جاں ہے مگر ہے تو طوائف ہی ناں میں تری کھل کے حمایت بھی نہیں کر سکتا وہ جسے پوجتے اک عمر گزاری ہم نے کیا وہ اک بار عنایت بھی نہیں کر سکتا دل جو بچہ تھا بہت شوخ ترے جانے پر ایسے سہما ہے شرارت بھی ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہستی کے کمالات سے باہر نکلے

    اپنی ہستی کے کمالات سے باہر نکلے وہ اگر میرے خیالات سے باہر نکلے دفن کر رکھے تھے سینے کے کسی کونے میں راز جو تیرے سوالات سے باہر نکلے عشق کھائے گا نہیں یار یہ وعدہ ہے مرا اس سے کہہ دو کہ وہ خدشات سے باہر نکلے اس کے وعدوں پہ بھی کر لیں گے بھروسہ وہ اگر شہر کوفہ کے مضافات سے باہر ...

    مزید پڑھیے

    اک طرف پیار تو اک سمت انا رکھی ہے

    اک طرف پیار تو اک سمت انا رکھی ہے حسن والوں نے حسنؔ کیسی سزا رکھی ہے اس کی یادوں کے گلستاں کو ہرا رکھنا ہے اک ندی آنکھ سے اشکوں کی بہا رکھی ہے روشنی تیری بھی وقعت ہے ہمارے دم سے ہم اندھیروں نے تری شان بڑھا رکھی ہے مجھ کو ہے علم تو راتوں میں کہاں جاتا ہے آج کل میں نے ستاروں سے بنا ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھ اس نے ہے کیا کچھ کہا محبت کو

    نہ پوچھ اس نے ہے کیا کچھ کہا محبت کو ہمارے سامنے رسوا کیا محبت کو ہمارے پاس دعا مانگنے کا وقت نہیں اب آپ آسرا دے گا خدا محبت کو تو مجھ کو چھوڑ تو پھر اس طرح سے چھوڑ کہ میں گلی گلی میں پھروں کوستا محبت کو ہم ایسے لوگ ہی ذہنی مریض ہوتے ہیں جو مانتے ہیں بڑا آسرا محبت کو ہماری آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    سمجھا کوئی بھی چال نہ اس چال باز کی

    سمجھا کوئی بھی چال نہ اس چال باز کی کرتے رہے بیاں سبھی ہونٹوں کی نازکی در پر خدا کے کھینچ کے لایا تھا اس کو عشق کافر کو پڑ گئی تھی ضرورت نماز کی ہم نے بھی خود کے قتل میں چھوڑی نہیں کسر اس نے بھی دشمنوں سے بہت ساز باز کی کانوں کی کچی نکلی وہ دیوار گاؤں کی تشہیر کر رہی ہے فقیروں کے ...

    مزید پڑھیے