اپنی ہستی کے کمالات سے باہر نکلے
اپنی ہستی کے کمالات سے باہر نکلے
وہ اگر میرے خیالات سے باہر نکلے
دفن کر رکھے تھے سینے کے کسی کونے میں
راز جو تیرے سوالات سے باہر نکلے
عشق کھائے گا نہیں یار یہ وعدہ ہے مرا
اس سے کہہ دو کہ وہ خدشات سے باہر نکلے
اس کے وعدوں پہ بھی کر لیں گے بھروسہ وہ اگر
شہر کوفہ کے مضافات سے باہر نکلے
اس کی آنکھوں نے پکارا تو گنے تک نہ گئے
رند کتنے ہی خرابات سے باہر نکلے
اور بھی خالی ہیں دنیا میں ٹھکانے لاکھوں
اس سے کہہ دو کہ مری ذات سے باہر نکلے