کسی پری کے خیالوں میں رقص کرتے رہے
کسی پری کے خیالوں میں رقص کرتے رہے
ہماری آنکھ سے آنسو نکل کے اڑتے رہے
ہم ایسے پتے انا زاد بھی بلا کے تھے
بہار رت میں درختوں سے لڑ کے جھڑتے رہے
کسی کے لفظ گرے آبشار کے مانند
ہمارے دل میں مسلسل شگاف پڑتے رہے
کسی کو مانگنے آئی تھی منتوں سے کوئی
کئی فقیر مزاروں پہ سر پٹختے رہے
ہماری نیند نہ جانے کہاں بھٹکتی رہی
ہمارے خواب ہمارے لئے تڑپتے رہے
تمہارے بعد میں ہنستا رہا مگر یارم
تمہارے بعد تو دشمن بھی رو کے ملتے رہے
اب ان کو لوگ حسنؔ شیش ناگ کہتے ہیں
جو ایک عرصہ مری آستیں میں پلتے رہے