ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں
ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں
جا تجھ کو تخیل سے بری کرنے لگے ہیں
ہاں راس نہیں ہم کو محبت کا خزانہ
تھک ہار کے ہم سوداگری کرنے لگے ہیں
مٹی سے بنایا تھا جو ساحل پہ گھروندا
کچھ بچے اسے بارہ دری کرنے لگے ہیں
اس واسطے لہجے کو بدل ڈالا ہے ہم نے
خوشاب کو ہم دیکھ مری کرنے لگے ہیں
مدت سے تخیل میں تھی جو مورتی تیری
ہم اب کے اسے چھو کے پری کرنے لگے ہیں
جو لوگ نہیں جانتے مٹی کی حقیقت
وہ لوگ بھی اب کوزہ گری کرنے لگے ہیں
قربان حسنؔ ایسے فقیروں پہ مرا دل
جو پیڑ کے پتوں کو دری کرنے لگے ہیں