جو تری شکل کو مہتاب نہیں کہہ سکتے

جو تری شکل کو مہتاب نہیں کہہ سکتے
وہ مری آنکھ کو تالاب نہیں کہہ سکتے


سچ میں کمزور ہے بینائی ہماری لیکن
ریت کے ذرے کو سیماب نہیں کہہ سکتے


ہم ہیں اوصاف پہ معیار پرکھنے والے
اس لئے کوے کو سرخاب نہیں کہہ سکتے


کم سے کم آپ تو رکھ لیجے بھرم یاری کا
وہ تو دشمن ہیں نا آداب نہیں کہہ سکتے


تیرے وعدوں کی ضمانت نہیں دیتا کوئی
تھل کے صحرا کو تو شاداب نہیں کہہ سکتے


گر تو مومن ہے تو چہرے پہ کہیں نور بھی ہو
ہم کسی داغ کو محراب نہیں کہہ سکتے


لاکھ میٹھے ہوں ترے شہر کے چشمے لیکن
ہم ترے شہر کو خوشاب نہیں کہہ سکتے