اک طرف پیار تو اک سمت انا رکھی ہے

اک طرف پیار تو اک سمت انا رکھی ہے
حسن والوں نے حسنؔ کیسی سزا رکھی ہے


اس کی یادوں کے گلستاں کو ہرا رکھنا ہے
اک ندی آنکھ سے اشکوں کی بہا رکھی ہے


روشنی تیری بھی وقعت ہے ہمارے دم سے
ہم اندھیروں نے تری شان بڑھا رکھی ہے


مجھ کو ہے علم تو راتوں میں کہاں جاتا ہے
آج کل میں نے ستاروں سے بنا رکھی ہے


خون سادات نے مٹی کو فضیلت بخشی
خاک میں بھی مرے مولا نے شفا رکھی ہے


اس کی خواہش ہے اندھیروں میں بھٹکتا ہی رہوں
میں دیا لایا ہوں اور اس نے ہوا رکھی ہے


اتنا قاتل بھی نہیں حسن ترا ہوش میں رہ
ان چھچھوروں نے تو بے پر کی اڑا رکھی ہے


وصل کے لمحوں کو محصور کیا ہے صاحب
میں نے اس بار گھڑی پیچھے گھما رکھی ہے


خود مزے سے میں تمہیں سوچ رہا ہوں ہمدم
اور بستر پہ فقط نیند سلا رکھی ہے