حسن ظہیر راجا کی غزل

    ہر گھڑی خوف کے گرداب میں رہنا ہی نہیں

    ہر گھڑی خوف کے گرداب میں رہنا ہی نہیں اب مجھے حلقۂ احباب میں رہنا ہی نہیں میں تری بات کرا دیتا ہوں خود سے لیکن آنکھ کہتی ہے کسی خواب میں رہنا ہی نہیں نام بھی لیتا نہیں اب وہ کہیں جانے کا کل جو کہتا تھا کہ پنجاب میں رہنا ہی نہیں ہم ملاقات کے اوقات بڑھا دیں لیکن دیر تک چاند کو ...

    مزید پڑھیے

    اک دوسرے میں ڈوب کے ہم پار ہو گئے

    اک دوسرے میں ڈوب کے ہم پار ہو گئے اس بار یوں ملے ہیں کہ سرشار ہو گئے ویسے شروع میں ہمیں دشواریاں ہوئیں پھر اس کے بعد ہم بھی اداکار ہو گئے اس جسم کو توجہ کا فقدان لے گیا تم نے چھوا نہیں ہے تو مسمار ہو گئے کل کا کسے پتا مگر اتنا ضرور ہے ہم لوگ ذہنی طور پہ تیار ہو گئے دریا نہ دوریوں ...

    مزید پڑھیے

    سینے محبتوں سے منور کیے گئے

    سینے محبتوں سے منور کیے گئے ہم دوسروں سے ایسے بھی بہتر کیے گئے ویسے تمہارا خوف بھی کافی زیادہ تھا کچھ فیصلے تو خود سے بھی ڈر کر کیے گئے یک دم کسی نے ہم کو گلے سے لگا لیا صحرا سے ایک پل میں سمندر کیے گئے باقاعدہ ہمارا لیا جا رہا تھا نام پھر دیکھتے ہی دیکھتے دیگر کیے گئے اب آئنے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں سے اتر کر مرے دل تک کوئی آئے

    آنکھوں سے اتر کر مرے دل تک کوئی آئے اس در پہ بھی دینے کبھی دستک کوئی آئے پہلے تو بڑے دام بتاتا تھا وہ دل کے اب آس میں بیٹھا ہے کہ گاہک کوئی آئے ہر بار میں دنیا کے بلاوے پہ گیا ہوں اس بار یہ خواہش ہے کہ مجھ تک کوئی آئے اب ایک سا موسم تو ہمیشہ نہیں رہتا ممکن ہے کسی روز اچانک کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تھوڑی ضدی ہے مگر دیکھنا تھک جائے گی

    تھوڑی ضدی ہے مگر دیکھنا تھک جائے گی ایک دیوار مرے ساتھ چپک جائے گی یہ بتاؤ کہ کہیں رک تو نہیں جانا ہے یہ بتاؤ کہ کہاں تک یہ سڑک جائے گی ضبط والا ہوں مگر سامنے آ کر اس کے جانتا ہوں کہ مری آنکھ چھلک جائے گی صرف پیڑوں کے ہی چہرے نہیں اترے ہوں گے ساری بستی پہ اداسی وہ چھڑک جائے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا مسئلہ حل ہو رہا ہے

    ہمارا مسئلہ حل ہو رہا ہے کہ اب یہ شہر جنگل ہو رہا ہے کسی نے اپنی ناؤ کیا اتاری یہ دریا جیسے پاگل ہو رہا ہے مسلسل روح زخمی ہو رہی ہے بدن مسمار پل پل ہو رہا ہے میں شدت دھوپ کی جب سہہ چکا ہوں کوئی ایسے ہی بادل ہو رہا ہے ان آنکھوں کی عدم دلچسپیوں سے ہمارا خواب بوجھل ہو رہا ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی

    کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی دعا جو کی ہی نہیں تھی قبول ہونے لگی میں بیٹھے بیٹھے یوں ہی رقص پر اتر آیا پھر ایک آن میں دنیا یہ دھول ہونے لگی اب ایک جیسے تو ہوتے نہیں سبھی منظر کہیں پہ خوش تو کہیں وہ ملول ہونے لگی میں ایک بار ادھر بھول کر چلا گیا تھا پھر اس کے بعد مسلسل یہ بھول ...

    مزید پڑھیے

    میں نے بالکل نہیں چاہا کہ کوئی بات بڑھے

    میں نے بالکل نہیں چاہا کہ کوئی بات بڑھے اس نے جب ہاتھ بڑھایا تو مرے ہاتھ بڑھے یار ایسے کبھی عزت نہیں ملنے والی اپنی اوقات میں آ جاؤ کہ اوقات بڑھے مجھے اس سے تو کوئی اور نہیں تھا مطلب میں نے چاہا تھا ذرا میل ملاقات بڑھے اس نے آگاہ کیا لوٹ کے جانے سے مجھے اور پھر میری طرف کتنے ہی ...

    مزید پڑھیے

    دھکے دئے ہیں دھوپ نے سائے گلے پڑے

    دھکے دئے ہیں دھوپ نے سائے گلے پڑے تم ساتھ جب نہیں تھے تو رستے گلے پڑے اب ختم ہو چکا ہے بزرگوں کا احترام دریا کو آ کے آج کنارے گلے پڑے تم جا چکے تھے اور یہاں پھر تمہارے بعد اک دوسرے کو چاہنے والے گلے پڑے کیا اور کوئی شہر میں ملتا نہیں اسے آ آ کے روز عشق ہمارے گلے پڑے اس مفلسی کے ...

    مزید پڑھیے

    اس لیے طیش آ گیا تھا مجھے

    اس لیے طیش آ گیا تھا مجھے وہ ہنسی میں اڑا گیا تھا مجھے تب یہ کاغذ وغیرہ ہوتے نہ تھے پتھروں پر لکھا گیا تھا مجھے اس جگہ ٹھیک سے ذرا دیکھو وہ یہیں پر چھپا گیا تھا مجھے مجھ کو اس بات پر ہنسی آئی دنیا جیسا کہا گیا تھا مجھے رات میں اس پہ تھوڑا غصہ ہوا اور پھر پیار آ گیا تھا مجھے اصل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2