حسن ظہیر راجا کی غزل

    تجھے تو آج بھی ہم بے شمار چاہتے ہیں

    تجھے تو آج بھی ہم بے شمار چاہتے ہیں اک اور طرح کا لیکن قرار چاہتے ہیں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ شام ہوتے ہی ہم اپنے آپ سے تھوڑا فرار چاہتے ہیں پلٹنے والے تجھے پہلے ہی بتایا تھا کسی بھی شخص کو ہم ایک بار چاہتے ہیں یہ لوگ کیوں بھلا تھکتے دکھائی دیتے نہیں اب اور کتنا ترا انتظار چاہتے ...

    مزید پڑھیے

    وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا

    وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا میں نے جس پیڑ کو بلایا تھا تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے میں کوئی بات کرنے آیا تھا یہ ہوائیں بھی کتنی جھوٹی ہیں ہم نے بس ہاتھ ہی ملایا تھا پھر کوئی بات آ گئی دل میں میں اسے پاس لے ہی آیا تھا وہ تو حیرت میں ڈالنا تھا اسے کون دریا کو روک پایا تھا تتلیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2