تھوڑی ضدی ہے مگر دیکھنا تھک جائے گی
تھوڑی ضدی ہے مگر دیکھنا تھک جائے گی
ایک دیوار مرے ساتھ چپک جائے گی
یہ بتاؤ کہ کہیں رک تو نہیں جانا ہے
یہ بتاؤ کہ کہاں تک یہ سڑک جائے گی
ضبط والا ہوں مگر سامنے آ کر اس کے
جانتا ہوں کہ مری آنکھ چھلک جائے گی
صرف پیڑوں کے ہی چہرے نہیں اترے ہوں گے
ساری بستی پہ اداسی وہ چھڑک جائے گی
رات چوپال میں دیتے تھے تسلی سارے
چند ہی روز ہیں اب فصل بھی پک جائے گی
پھل کا پھر بوجھ تو اس سے نہیں اٹھنے والا
بور آتے ہی اگر شاخ لچک جائے گی
اس نے ماں باپ کا چپ چاپ کہا مان لیا
میں تو سمجھا تھا کہ پنکھے سے لٹک جائے گی