آنکھوں سے اتر کر مرے دل تک کوئی آئے
آنکھوں سے اتر کر مرے دل تک کوئی آئے
اس در پہ بھی دینے کبھی دستک کوئی آئے
پہلے تو بڑے دام بتاتا تھا وہ دل کے
اب آس میں بیٹھا ہے کہ گاہک کوئی آئے
ہر بار میں دنیا کے بلاوے پہ گیا ہوں
اس بار یہ خواہش ہے کہ مجھ تک کوئی آئے
اب ایک سا موسم تو ہمیشہ نہیں رہتا
ممکن ہے کسی روز اچانک کوئی آئے
احباب کے قدموں کو ترستی ہے مری شام
کھولے ہوئے بیٹھا ہوں میں بیٹھک کوئی آئے
اس دل کے مکاں کا میں حسنؔ پہلا مکیں ہوں
آتا ہے مرے بعد تو بے شک کوئی آئے