کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی

کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی
دعا جو کی ہی نہیں تھی قبول ہونے لگی


میں بیٹھے بیٹھے یوں ہی رقص پر اتر آیا
پھر ایک آن میں دنیا یہ دھول ہونے لگی


اب ایک جیسے تو ہوتے نہیں سبھی منظر
کہیں پہ خوش تو کہیں وہ ملول ہونے لگی


میں ایک بار ادھر بھول کر چلا گیا تھا
پھر اس کے بعد مسلسل یہ بھول ہونے لگی


اب اپنے بیچ یہی خامشی ہی بہتر ہے
کہ گفتگو تو ہماری فضول ہونے لگی


یہ باغ دشت میں تبدیل ہو رہا ہے حسنؔ
جو شاخ پھول تھی پہلے ببول ہونے لگی