خواب ٹھہرا سر منزل نہ تہ بام کبھی
خواب ٹھہرا سر منزل نہ تہ بام کبھی
اس مسافر نے اٹھایا نہیں آرام کبھی
شب بخیر اس نے کہا تھا کہ ستارے لرزے
ہم نہ بھولیں گے جدائی کا وہ ہنگام کبھی
سرکشی اپنی ہوئی کم نہ امیدیں ٹوٹیں
مجھ سے کچھ خوش نہ گیا موسم آلام کبھی
ہم سے آواروں کی صحبت میں ہے وہ لطف کہ بس
دو گھڑی مل تو سہی گردش ایام کبھی
اے صبا میں بھی تھا آشفتہ سروں میں یکتا
پوچھنا دلی کی گلیوں سے مرا نام کبھی