رات گزری کہ شب وصل کا پیغام ملا
رات گزری کہ شب وصل کا پیغام ملا
سو گئے خواب کی بانہوں میں جو آرام ملا
ڈھونڈتے رہیے شب و روز امیدوں کے قدم
کوچۂ زیست میں لے دے کے یہی کام ملا
خوبئ بخت کہ جب بھول چکا تھا سب کچھ
بے وفائی کا لب غیر سے الزام ملا
پا پیادہ تھا مگر راہ میں وہ دھوم مچی
جھک کے تعظیم سے شہزادۂ ایام ملا
ہم نے بیچی نہیں جس روز متاع غیرت
اک پیالہ بھی نہ مے کا ہمیں اس شام ملا
مختصر یہ ہے کہ جب وقت وداع گل تھا
خواب میں آ کے گلے مجھ سے وہ گلفام ملا
ہم جنوں ہے کہ نہیں راہ میں پوچھیں گے نعیمؔ
دشت غربت میں یہ کیا کم ہے کہ ہم نام ملا