حارث بلال کی غزل

    سکوں نصیب ہے پر اپنے گھر کی حد تک ہے

    سکوں نصیب ہے پر اپنے گھر کی حد تک ہے کوئی تو ہے کہ جو دیوار و در کی حد تک ہے میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں کچھ بڑا کر جاؤں مرا زمانہ مگر خیر و شر کی حد تک ہے ابھی وہ چھت پہ کھڑے ہو کے ہاتھ سینکتے ہیں ابھی یہ آگ فقط میرے گھر کی حد تک ہے کوئی طلوع ہوا اور دھند چھانے لگی مجھے لگا تھا ...

    مزید پڑھیے

    خزاں نے پھول کو پتھر نے آئنے کو چنا

    خزاں نے پھول کو پتھر نے آئنے کو چنا ہمیشہ ہم نے مگر ایک دوسرے کو چنا کسی بھی شکل میں تجسیم کرنا تھا اس کو چراغ پہلے بہت تھے سو طاقچے کو چنا مری نگاہ میں ہر چیز ایک جیسی تھی کہ جب تلک نہ کسی ایک نظریے کو چنا خدائے لفظ نے پہچان کے لیے اپنی تمہارے ساتھ ہمارے مکالمے کو چنا یہ پھول ...

    مزید پڑھیے

    وہ درمیان سے نکلا تو یہ کھلا مجھ پر

    وہ درمیان سے نکلا تو یہ کھلا مجھ پر کہ ہو گئے ہیں مسلط کئی خدا مجھ پر ادھورے نقش وگرنہ کشش نہیں رکھتے کیا گیا ہے کوئی خاص تجربہ مجھ پر ہمارے بیچ تکلم کی ایک صورت تھی کہ حسن تجھ پہ اترتا اور آئنہ مجھ پر بٹھا دیا گیا پہلے بڑے بڑوں میں مجھے پھر ایک کیمرہ فوکس کیا گیا مجھ پر وہ ...

    مزید پڑھیے

    چہرہ تمام زندگی تصویر ایک پل

    چہرہ تمام زندگی تصویر ایک پل اتنے طویل خواب کی تعبیر ایک پل وہ سانس میرے جسم سے ہو کر گزر گئی ٹھہرا نہیں ہدف پہ ترا تیر ایک پل اک سانحہ کہ روشنی کرتا ہے چار سمت اک لو کہ چھوڑتی نہیں تاثیر ایک پل جیسے کسی تنے سے جڑا ہو تمام پیڑ میرے ازل ابد سے بغل گیر ایک پل سب کچھ نئے سرے سے ...

    مزید پڑھیے

    یار خائف ہیں مرا درد بڑھا دینے سے

    یار خائف ہیں مرا درد بڑھا دینے سے آگ اتنی ہے کہ بجھ جائے ہوا دینے سے جیسے ہم دونوں کے ملنے پہ سفر ختم ہوا منزلیں بنتی ہیں رستوں کو ملا دینے سے وسعت ذات مکیں سے ہے مکاں کی وسعت دل بڑا ہوگا تجھے اس میں جگہ دینے سے برف پگھلی تو نظر آنے لگے سبز پہاڑ آنکھ کھلنے لگی خوابوں کو بہا دینے ...

    مزید پڑھیے

    اپنا ملن کسی کی دلی بد دعا بھی ہے

    اپنا ملن کسی کی دلی بد دعا بھی ہے یعنی ہمارا وصل ہماری سزا بھی ہے المختصر تمہاری مہک اوڑھتے ہوئے احساس ہو گیا کہ اسے پھیلنا بھی ہے اس پر ٹھہر سکے تو ٹھہر چل سکے تو چل یہ دل قیام گاہ بھی ہے راستہ بھی ہے اچھا تری نظر میں بہت مختلف ہوں میں یعنی تری نظر میں کوئی دوسرا بھی ہے ساری ...

    مزید پڑھیے

    اے بگولے کے لبادے میں سمائی ہوئی ریت

    اے بگولے کے لبادے میں سمائی ہوئی ریت ساتھ رکھ لے مجھے اے وجد میں آئی ہوئی ریت تاکہ سورج قریں آئے تو یہ صحرا ہو جائے سو سمندر تلے اس نے ہے بچھائی ہوئی ریت بیٹھے بیٹھے مجھے چوراہا بنا دیتی ہے چار سمتوں سے مری سمت اڑائی ہوئی ریت شمع بینائی منڈیروں کا سفر کرتی رہی دل اڑاتا رہا ...

    مزید پڑھیے

    وہ پچھلے موڑ پر اس راستے سے ہٹ چکا تھا

    وہ پچھلے موڑ پر اس راستے سے ہٹ چکا تھا میں آنکھیں بند کر کے جس کے پیچھے چل رہا تھا تشخص کھو رہے تھے ہم بدلتے پانیوں سے ہمارا ہر تنا پھیلاؤ میں ہم سے جدا تھا محبت بیچ میں دیوار آنے سے ہوئی تھی کہ ہم دونوں کا قد دیوار سے تھوڑا بڑا تھا کسی کے اک قدم سے راستوں نے سمت پائی کسی کی اک ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک بار فلک سے اشارہ ہو جائے

    بس ایک بار فلک سے اشارہ ہو جائے پھر اس کے بعد بھلے جو خسارہ ہو جائے عجب فضا ہے کہ تحقیق اس پہ ہے موقوف جو ہو چکا ہے وہ ہم سے دوبارہ ہو جائے ہتھیلیوں سے حلق میں اترتا جام وصال کسی گلاس میں ڈالیں تو کھارا ہو جائے بس اتنا دور رہوں گا کہ تجھ کو دیکھ سکوں کچھ اتنا دور کہ میرا گزارہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    فلک کے پار اڑانوں کی حد نہیں ہوتی

    فلک کے پار اڑانوں کی حد نہیں ہوتی وگرنہ دوسری جانب بھی اک زمیں ہوتی اگر روایتی مفہوم بھول کر دیکھیں تو کیا سویر بھی کچھ شام سی نہیں ہوتی وہ اس طرح مری ہوتی نہیں اگر اس کی سہیلیوں میں کوئی اور بھی حسیں ہوتی صدائیں توڑ نہ پاتیں خمار کا عالم اگر وہ آنکھ مرے خواب کی امیں ہوتی وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2