یار خائف ہیں مرا درد بڑھا دینے سے
یار خائف ہیں مرا درد بڑھا دینے سے
آگ اتنی ہے کہ بجھ جائے ہوا دینے سے
جیسے ہم دونوں کے ملنے پہ سفر ختم ہوا
منزلیں بنتی ہیں رستوں کو ملا دینے سے
وسعت ذات مکیں سے ہے مکاں کی وسعت
دل بڑا ہوگا تجھے اس میں جگہ دینے سے
برف پگھلی تو نظر آنے لگے سبز پہاڑ
آنکھ کھلنے لگی خوابوں کو بہا دینے سے
جیسے قطرے نے اتارا ہو ندی کا صدقہ
کتنا ہلکا ہوا دل اس کو دعا دینے سے
تیرے دم سے مری نظریں مرے رستے پر ہیں
فرق پڑتا ہے تجھے رہ سے ہٹا دینے سے
یہ رعایت بھی کوئی پیڑ ہی کر سکتا تھا
راستہ کھل گیا اک شاخ کٹا دینے سے