خزاں نے پھول کو پتھر نے آئنے کو چنا
خزاں نے پھول کو پتھر نے آئنے کو چنا
ہمیشہ ہم نے مگر ایک دوسرے کو چنا
کسی بھی شکل میں تجسیم کرنا تھا اس کو
چراغ پہلے بہت تھے سو طاقچے کو چنا
مری نگاہ میں ہر چیز ایک جیسی تھی
کہ جب تلک نہ کسی ایک نظریے کو چنا
خدائے لفظ نے پہچان کے لیے اپنی
تمہارے ساتھ ہمارے مکالمے کو چنا
یہ پھول باغ سے باہر نہ آ سکے حارثؔ
کہ ڈالی ترک بھی کی تو کتابچے کو چنا