بس ایک بار فلک سے اشارہ ہو جائے

بس ایک بار فلک سے اشارہ ہو جائے
پھر اس کے بعد بھلے جو خسارہ ہو جائے


عجب فضا ہے کہ تحقیق اس پہ ہے موقوف
جو ہو چکا ہے وہ ہم سے دوبارہ ہو جائے


ہتھیلیوں سے حلق میں اترتا جام وصال
کسی گلاس میں ڈالیں تو کھارا ہو جائے


بس اتنا دور رہوں گا کہ تجھ کو دیکھ سکوں
کچھ اتنا دور کہ میرا گزارہ ہو جائے


یہ جتنی روشنی صدیوں میں جذب کر چکی ہے
زمین چاند کو لے کر ستارہ ہو جائے


عجب نہیں کوئی تجھ سا بنا دیا جائے
عجب نہیں ہے کہ تو اور پیارا ہو جائے


یہ طاقچوں میں رکھے سب چراغ سورج ہیں
اگر وہ چاند سا چہرہ ہمارا ہو جائے