وہ پچھلے موڑ پر اس راستے سے ہٹ چکا تھا
وہ پچھلے موڑ پر اس راستے سے ہٹ چکا تھا
میں آنکھیں بند کر کے جس کے پیچھے چل رہا تھا
تشخص کھو رہے تھے ہم بدلتے پانیوں سے
ہمارا ہر تنا پھیلاؤ میں ہم سے جدا تھا
محبت بیچ میں دیوار آنے سے ہوئی تھی
کہ ہم دونوں کا قد دیوار سے تھوڑا بڑا تھا
کسی کے اک قدم سے راستوں نے سمت پائی
کسی کی اک جھلک سے پورا آئینہ بنا تھا
وہ باتیں ختم ہونے پر خدا حافظ نہ کہہ دے
میں باتیں کرتے کرتے آف لائن ہو گیا تھا
اندھیرا بڑھ رہا تھا عمر کی کچی سڑک پر
سفر لازم تھا سو رفتار کو کم کر دیا تھا
وہ کمرہ تھا کہ ویرانی بھرا سینہ تھا حارثؔ
وہ اک کونے میں بکسا تھا کہ دل رکھا ہوا تھا