Hanif Danish Indori

حنیف دانش اندوری

حنیف دانش اندوری کی غزل

    زیست کی صورت نکالی ہے ابھی

    زیست کی صورت نکالی ہے ابھی میں نے توبہ توڑ ڈالی ہے ابھی جوڑ کر ٹکڑے تیری تصویر کے اک نئی صورت بنا لی ہے ابھی جو بھی مجھ کو بھول کر شاداب ہیں میں نے ان پر دھول ڈالی ہے ابھی زندگی عیب تنافر ہے مگر ٹکڑے کر کر کے نبھا لی ہے ابھی بن کے بیوی شيرنی ہو جائے گی دیکھنے میں بھولی بھالی ہے ...

    مزید پڑھیے

    سراب ہے کہ نہیں کیوں جناب ہے کہ نہیں

    سراب ہے کہ نہیں کیوں جناب ہے کہ نہیں ہماری زندگی مثل حباب ہے کہ نہیں ہماری بات کا ناصح جواب ہے کہ نہیں گناہ عشق پہ کوئی عذاب ہے کہ نہیں سبق پڑھیں گے محبت کا تجھ سے پر یہ بتا تری کتاب میں سوکھا گلاب ہے کی نہیں سبق کیوں امن کا ہم ہی پڑھیں کتابوں میں تمہارے پاس بھی کوئی کتاب ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ یار میں تھوڑا سنور جاؤں تو دستک دوں

    نگاہ یار میں تھوڑا سنور جاؤں تو دستک دوں جو نظروں سے در دل تک پہنچ پاؤں تو دستک دوں سوالی ہوں ترے در کا انا ممتاز پر مجھ کو انا کے زعم سے باہر نکل آؤں تو دستک دوں یہ سوچا ہے تری محفل میں اک دن حشر برپاؤں قیامت اپنے سر پر میں اٹھا لاؤں تو دستک دوں یہی میں سوچ کے بھائی کے گھر سے پھر ...

    مزید پڑھیے

    جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیئے تھا

    جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیئے تھا انا پر آ گئی تھی سر کٹانا چاہیئے تھا ہوا ہموار دریا تھا شناور کا مقدر ہوا وہ پار جس کو ڈوب جانا چاہیئے تھا نصیحت کا تری یہ زاویہ کچھ اور ہوتا میاں ناصح تجھے بھی دل لگانا چاہیئے تھا مشقت سے بدلنی تھی ہتھیلی کہ لکیریں مقدر ہاتھ میں تھا ...

    مزید پڑھیے

    جھوٹ کو سچ تو مرے یار بنا سکتا ہے

    جھوٹ کو سچ تو مرے یار بنا سکتا ہے یہ ہنر سن تجھے سردار بنا سکتا ہے تجھ کو بھی حق ہے سیاست میں چلے جانے کا تو اگر ریت کی دیوار بنا سکتا ہے یہ نیا دور ترقی ہے یہاں سکوں سے کوئی خرقہ کوئی دستار بنا سکتا ہے مختلف روگ کی بس ایک دوا دے دے کر یہ مسیحا ہمیں بیمار بنا سکتا ہے زعم سجدوں کا ...

    مزید پڑھیے

    ہے کیا سنگ در جاناں اسی کا دل سمجھتا ہے

    ہے کیا سنگ در جاناں اسی کا دل سمجھتا ہے جو دیوانہ تری چوکھٹ کو مستقبل سمجھتا ہے تقاضے پر مروت کے ذرا سر کیا جھکایا تھا اسی دن سے مرا دشمن مجھے بزدل سمجھتا ہے یہ سڑکوں پر جو دیوانہ دوانہ وار پھرتا ہے کوئی پاگل سمجھتا ہے کوئی کامل سمجھتا ہے خوشی چپکا کے ہونٹوں پر نیا چہرہ بناتا ...

    مزید پڑھیے

    نیا منظر دکھایا جا رہا ہے

    نیا منظر دکھایا جا رہا ہے ہمیں پھر ورغلایا جا رہا ہے ہے دوراہے پے پیارے ملک اپنا نیا راستہ دکھایا جا رہا ہے ستم پرور اک اندھا بولتا ہے سو گونگوں کو سنایا جا رہا ہے کسی کے سر پے ہے ٹوپی کسی کی کسے رہبر بتایا جا رہا ہے سر مقتل وہی تھے سر جھکائے جنہیں قاتل بتایا جا رہا ہے طلب میں ...

    مزید پڑھیے

    سر پہ دستار رکھے ہاتھ میں کاسہ رکھے

    سر پہ دستار رکھے ہاتھ میں کاسہ رکھے کون اب جان پہ اپنی یہ تماشہ رکھے کوئی دریا نہ بجھا پایا مری تشنہ لبی اب کوئی لائے مرے ہونٹوں پہ صحرا رکھے اس کو ٹھکرا دوں اگر سر پہ بٹھا لے گی مجھے میں جو پھرتا ہوں ابھی سر پہ یہ دنیا رکھے ایک مدت سے نہیں دیکھا ہے چہرہ ان کا ایک مدت سے ہے ...

    مزید پڑھیے

    مسکراؤ کہ عید ہو جائے

    مسکراؤ کہ عید ہو جائے گنگناؤ کے عید ہو جائے اپنے چھوٹے بڑوں کی سب غلطی بھول جاؤ کہ عید ہو جائے بے دلی سے نہ یوں گلے سے لگو دل ملاؤ کہ عید ہو جائے گر تمہیں کوئی اپنا کہہ دے تو مان جاؤ کہ عید ہو جائے جا کے اپنے بڑوں کے قدموں میں سر جھکاؤ کہ عید ہو جائے یوں تو گھر میں تمام مہماں ...

    مزید پڑھیے

    ہو نہ اقرار تو انکار پے ٹالے مجھ کو

    ہو نہ اقرار تو انکار پے ٹالے مجھ کو اس کا چپ رہنا کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو کچھ گہر ٹوٹ کے قیمت نہیں کھوتے اپنی میں اگر ٹوٹ کے بکھروں تو اٹھا لے مجھ کو میں انا چھوڑ کے آیا ہوں ترے دروازے ہے جہاں تک تری حد اتنا جھکا لے مجھ کو سانس کے پہلے کہیں ٹوٹ نہ جائے امید اب کوئی وعدۂ فردا پہ ...

    مزید پڑھیے