ہو نہ اقرار تو انکار پے ٹالے مجھ کو
ہو نہ اقرار تو انکار پے ٹالے مجھ کو
اس کا چپ رہنا کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
کچھ گہر ٹوٹ کے قیمت نہیں کھوتے اپنی
میں اگر ٹوٹ کے بکھروں تو اٹھا لے مجھ کو
میں انا چھوڑ کے آیا ہوں ترے دروازے
ہے جہاں تک تری حد اتنا جھکا لے مجھ کو
سانس کے پہلے کہیں ٹوٹ نہ جائے امید
اب کوئی وعدۂ فردا پہ نہ ٹالے مجھ کو
تیرے معیار پے اترا ہوں نہ اتروں گا کھرا
میں برا ہی سہی اب تو ہی نبھا لے مجھ کو
میں محبت کا رفاقت کا بھرم رکھتا ہوں
جو مرا ہو نہ سکے اپنا بنا لے مجھ کو
ایک معمولی دیا ہوں میں سر راہ گزار
راہ میں جس کی اندھیرا ہو جلا لے مجھ کو
میں نے رہبر سے کہا اونچا شجر ہو تم بھی
بس اسی دن سے پڑے جان کے لالے مجھ کو