ہے کیا سنگ در جاناں اسی کا دل سمجھتا ہے

ہے کیا سنگ در جاناں اسی کا دل سمجھتا ہے
جو دیوانہ تری چوکھٹ کو مستقبل سمجھتا ہے


تقاضے پر مروت کے ذرا سر کیا جھکایا تھا
اسی دن سے مرا دشمن مجھے بزدل سمجھتا ہے


یہ سڑکوں پر جو دیوانہ دوانہ وار پھرتا ہے
کوئی پاگل سمجھتا ہے کوئی کامل سمجھتا ہے


خوشی چپکا کے ہونٹوں پر نیا چہرہ بناتا ہوں
میں کیسے آتا جاتا ہوں سر محفل سمجھتا ہے


سر مقتل یہ کٹنے کو جھکے گی تو انا کے ساتھ
مری گردن کی خوبی کو مرا قاتل سمجھتا ہے


سخاوت تو مشیت پہ ہی مبنی ہے سخی کی پر
غم انکار کیا ہے یہ دل سائل سمجھتا ہے


یہاں انصاف ہونا غیر ممکن ہے میاں دانشؔ
یہ منصف حق بیانی کو ذرا مشکل سمجھتا ہے