جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیئے تھا

جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیئے تھا
انا پر آ گئی تھی سر کٹانا چاہیئے تھا


ہوا ہموار دریا تھا شناور کا مقدر
ہوا وہ پار جس کو ڈوب جانا چاہیئے تھا


نصیحت کا تری یہ زاویہ کچھ اور ہوتا
میاں ناصح تجھے بھی دل لگانا چاہیئے تھا


مشقت سے بدلنی تھی ہتھیلی کہ لکیریں
مقدر ہاتھ میں تھا آزمانا چاہیئے تھا


تیرے سر پر جو پگڑی ہے مرے اجداد کی ہے
مری تعظیم میں یہ سر جھکانا چاہیئے تھا


در جاناں در جاناں نظر آتا تھا ہر سو
جبیں بیتاب تھی اس کو ٹھکانا چاہیئے تھا


میں خود کو یاد تھا میری محبت میں کمی تھی
تری قربت میں خود کو بھول جانا چاہیئے تھا


ہمیشہ ہی رہی ان بن کسی دانشؔ سے اس کی
مرے جیسا اسے پاگل دیوانہ چاہیئے تھا


تماشہ تھی جو دانشؔ زندگی تو دیکھ لیتا
جو نغمہ تھی تو اس کو گنگنانا چاہیئے تھا


فسانہ بن گئی تھی زندگانی گر جو دانشؔ
اسے عزت سے سننا تھا سنانا چاہئے تھا