Hamid Iqbal Siddiqui

حامد اقبال صدیقی

حامد اقبال صدیقی کی غزل

    جدائیوں کے تصور ہی سے رلاؤں اسے

    جدائیوں کے تصور ہی سے رلاؤں اسے میں جھوٹ موٹ کا قصہ کوئی سناؤں اسے اسے یقین ہے کتنا مری وفاؤں کا خلاف اپنے کسی روز ورغلاؤں اسے وہ تپتی دھوپ میں بھی ساتھ میرے آئے گا مگر میں چاندنی راتوں میں آزماؤں اسے غموں کے صحرا میں پھرتا رہوں اسے لے کر اداسیوں کے سمندر میں ساتھ لاؤں ...

    مزید پڑھیے

    زباں اظہار لہجہ بھول جاؤں

    زباں اظہار لہجہ بھول جاؤں مرے معبود کیا کیا بھول جاؤں بکھر جاؤں زمیں سے آسماں تک پھر ایسا ہو سمٹنا بھول جاؤں میں تیرا نام اتنی بار لکھوں کہ اپنا نام لکھنا بھول جاؤں تری پرچھائیں تو لے آؤں گھر تک کہیں اپنا ہی سایہ بھول جاؤں تری آواز تو پہچان لوں گا یہ ممکن ہے کہ چہرہ بھول ...

    مزید پڑھیے

    تم تھے خدا تھا اور مجسم دعا تھا میں

    تم تھے خدا تھا اور مجسم دعا تھا میں یوں ہی تمہارے نام نہ لکھا گیا تھا میں خواہش کے پھیلتے ہوئے منظر میں تم ہی تم جذبوں کے اک حصار میں سمٹا ہوا تھا میں کچھ یہ بھی تھا کہ تم نے مجھے آسماں کیا کچھ یوں بھی تھا کہ خود میں کہیں کھو گیا تھا میں تم نے ہی نقش نقش کیا ہر لکیر کو ورنہ خود ...

    مزید پڑھیے

    کوئی سازش رچو زیر و زبر کی بات مت سوچو

    کوئی سازش رچو زیر و زبر کی بات مت سوچو ریاکاروں میں تم اپنے ہنر کی بات مت سوچو یہ ہجرت تھی مقدر لازمی تھا چھوٹنا سب کچھ مراسم رابطے گھر اور نگر کی بات مت سوچو سبب کوئی بھی ہو لیکن لہو تقسیم ہونا تھا یہ سرحد ہے ادھر تم ہو ادھر کی بات مت سوچو یہی اک کوٹھری اپنے لئے آنگن ہے بیٹھک ...

    مزید پڑھیے

    کہاں تحریریں میں نے بانٹ دی ہیں

    کہاں تحریریں میں نے بانٹ دی ہیں ہنر تدبیریں میں نے بانٹ دی ہیں تمہارے خواب نے تاخیر کر دی سبھی تعبیریں میں نے بانٹ دی ہیں لکھو گھر کے سبھی افراد میں اب مری تقدیریں میں نے بانٹ دی ہیں کئی غزلیں تمہارے نام لکھیں بڑی جاگیریں میں نے بانٹ دی ہیں سنو ان گونگے بہرے بام و در کو کئی ...

    مزید پڑھیے

    جذب کی سب انتہاؤں کا تماشا ہر طرف

    جذب کی سب انتہاؤں کا تماشا ہر طرف تم کہا تھے تم نہیں تھے میں ہی میں تھا ہر طرف یہ مرے دل میں سمٹ آئے گی اک دن دیکھنا تم نے کس عالم میں پھیلائی تھی دنیا ہر طرف دشت میں بھی آ ملے تھے کائناتی سلسلے وحشتوں نے کر دیا تھا میرا چرچا ہر طرف تم نے میرے در پہ لا چھوڑا اسے اچھا کیا ورنہ یوں ...

    مزید پڑھیے

    منزل کہاں ہے دور تلک راستے ہیں یار

    منزل کہاں ہے دور تلک راستے ہیں یار کس جستجو میں خواب کے یہ قافلے ہیں یار پل پل بدلتا رہتا ہے تہذیب کا مزاج لمحوں کی دسترس میں عجب سلسلے ہیں یار ہے سابقہ ہزار مراحل سے اور پھر اس زندگی کے بعد بھی کچھ مرحلے ہیں یار تو ہی بتا تجھے میں رکھوں کس شمار میں اچھے‌‌برے سبھی سے مرے رابطے ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے

    ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے مرا ہنر مجھے اکثر نڈھال کرتا ہے وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے مرے وجود کو صدیوں کا سلسلہ دے کر وہ کون ہے جو مجھے لا زوال کرتا ہے بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے میں چاہتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    عشق سے اجتناب کر لینا

    عشق سے اجتناب کر لینا اپنی مٹی خراب کر لینا ہم نے دنیا کو خوب جھیلا ہے ہم سے کچھ اکتساب کر لینا بے بسی سے نجات مل جائے پھر سوال و جواب کر لینا چھوڑ عزت مآب لوگوں کو خود کو عالی جناب کر لینا کل تجھے کچھ گناہ کرنے ہیں آج کار ثواب کر لینا اس کو بھر لینا اپنی آنکھوں میں اک حقیقت کو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی نہیں تھا ہنر آشنا تمہارے بعد

    کوئی نہیں تھا ہنر آشنا تمہارے بعد میں اپنے آپ سے الجھا رہا تمہارے بعد یہ میری آنکھیں بڑی تیز روشنی میں کھلیں میں چاہتا بھی تو کیا دیکھتا تمہارے بعد ہر ایک بات ہے الجھی ہوئی زبان تلے ہر ایک لفظ کوئی بد دعا تمہارے بعد بڑے قرینے سے رشتے سجائے تھے سارے بکھر بکھر گیا ہر سلسلہ ...

    مزید پڑھیے