تم تھے خدا تھا اور مجسم دعا تھا میں
تم تھے خدا تھا اور مجسم دعا تھا میں
یوں ہی تمہارے نام نہ لکھا گیا تھا میں
خواہش کے پھیلتے ہوئے منظر میں تم ہی تم
جذبوں کے اک حصار میں سمٹا ہوا تھا میں
کچھ یہ بھی تھا کہ تم نے مجھے آسماں کیا
کچھ یوں بھی تھا کہ خود میں کہیں کھو گیا تھا میں
تم نے ہی نقش نقش کیا ہر لکیر کو
ورنہ خود اپنے روپ کہاں جانتا تھا میں
اک تم ہی جانتے تھے مری ساری عادتیں
بے ساختہ مزاج تھا کب سوچتا تھا میں
میں تم کو دیکھتا تھا کسی اور روپ میں
وحشت زدہ تھے خواب مگر دیکھتا تھا میں
پھر تم بھی ہو گئے مرے ماضی کا ایک باب
پھر قصر اعتبار میں تنہا کھڑا تھا میں