ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے
ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے
مرا ہنر مجھے اکثر نڈھال کرتا ہے
وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل
تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے
مرے وجود کو صدیوں کا سلسلہ دے کر
وہ کون ہے جو مجھے لا زوال کرتا ہے
بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا
ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے
میں چاہتا ہوں مراسم بس ایک سمت چلیں
مگر وہ خود ہی جنوب و شمال کرتا ہے
دعا کا در تو سبھی کے لئے کھلا ہے مگر
جسے یقین ہو اس پر سوال کرتا ہے