کوئی سازش رچو زیر و زبر کی بات مت سوچو

کوئی سازش رچو زیر و زبر کی بات مت سوچو
ریاکاروں میں تم اپنے ہنر کی بات مت سوچو


یہ ہجرت تھی مقدر لازمی تھا چھوٹنا سب کچھ
مراسم رابطے گھر اور نگر کی بات مت سوچو


سبب کوئی بھی ہو لیکن لہو تقسیم ہونا تھا
یہ سرحد ہے ادھر تم ہو ادھر کی بات مت سوچو


یہی اک کوٹھری اپنے لئے آنگن ہے بیٹھک ہے
اگر اس شہر میں جینا ہے گھر کی بات مت سوچو


تمہارے سارے منصوبوں کا نسلوں پر احاطہ ہے
صدا آتی ہے عمر مختصر کی بات مت سوچو


مزاجوں پر گراں ہو کوئی لیکن رابطہ رکھنا
یہی تہذیب ہے اس سے مفر کی بات مت سوچو


یہ ممکن ہے خزاں کے بعد بھی موسم نہ راس آئے
تو ایسا بھی نہیں برگ و ثمر کی بات مت سوچو